حوزہ نیوز ایجنسیl
شاعر: احمد شہریار
شجر ماتم کناں ہیں اور پرندے رو رہے ہیں
دو عالم سر بہ زانو ہیں، فرشتے رو رہے ہیں
درودیوار پر غم کی فضا چھائی ہوئی ہے
سسکتی ہیں ہوائیں اور دریچے رو رہے ہیں
کہیں باغات میں انگور کی بیلوں کے آنسو
کہیں دریا، کہیں بادل ابھی سے رورہے ہیں
یہ کیا لمحہ ہے، کتنا حزن ہے اس ایک پل میں
کہ اس کے رنج میں سارے زمانے رورہے ہیں
جو روشن ہونے والی تھیں وہ راہیں بجھ رہی ہیں
خدایا! صبحِ صادق کی نگاہیں بجھ رہی ہیں
یہ کیسا زہر ہے جس سے جگر ہے پارہ پارہ
بجھا جاتا ہے اب سورج ستارہ در ستارہ
زمیں کی روح نکلی جارہی ہے فرطِ غم سے
کہیں افلاک سے ہوتا ہے اک غمناک اشارہ
کہ مٹی ہورہی ہے گمشدہ راہوں کی منزل
کہ رخصت ہورہا ہے بے سہاروں کا سہارا
یہاں فخرِ بشر کی نبض ڈوبی جارہی ہے
کوئی جاکر طبیبوں کو بلا لاؤ خدارا!
جہان علم پر تاریکی شب چھارہی ہے
کہ آنکھوں کو نہیں اک عہد کو نیند آرہی ہے
فضا پر گریہ طاری ہے، قیامت کا سماں ہے
زمیں نوحہ کناں ہے، آسماں نوحہ کناں ہے
یہاں ہے نزع طاری صاحب علم لدن پر
وہاں خود علم محوِ گریہ و آہ و فغاں ہے
کسی سے بھی نہیں ہے یہ خلا پر ہونے والا
کہاں ہے اور ایسا شخص دنیا میں کہاں ہے؟
یہ وہ استاد ہے جس کے ہیں جانے کتنے شاگرد
یہ وہ سورج ہے جس کے گرد پوری کہکشاں ہے
سو اس کے سوگ میں دامن میں آنسو بورہے ہیں
دو عالم سر بہ زانو ہیں، فرشتے رورہے ہیں